Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 14

نکاح کی رسم کے بعد جب سب مہمانوں نے اپنے اپنے گھروں کا رُخ کیا تو حُسنہ بیگم کے بے حد اصرار پر حسن شاہ اور اُنکی بیوی ہادیہ بیگم رُک گئے حُسنہ بیگم نے نیاز علی شاہ جو نہ صرف اُنکے کزن تھے بلکہ ہادیہ بیگم کے بھائی بھی تھے اُنکو اور اُنکی بیگم سعدیہ بیگم کو بھی رُکنے کا کہا تھا مگر وہ بڑے پیار سے منع کر گئے۔ "آپ لوگوں کو تو پتہ ہے کہ بینک والوں نے میری پوسٹنگ اسلام آباد کر دی اس لیے کل اسلام آباد جانا بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔" "انکل اُسامہ تو رُک سکتا ہے نہ۔۔۔۔۔"کب سے خاموش بیٹھے مریام نے لب کشائی کی جس پر سعدیہ بیگم نے سر اثبات میں ہلا دیا کیونکہ وہ اُسامہ کا لٹکا ہوا مُنہ دیکھ چُکیں تھیں آخر دونوں بیسٹ فرینڈز تھے۔ نیاز علی شاہ اور سعدیہ بیگم کے جانے کے بعد سب بچہ پارٹی لان میں چلے گئے جبکہ وہ چاروں لاؤنج میں بیٹھ کر چائے سے لُطف اندوز ہونے لگے۔ "کیا وقار بھائی اب تک ناراض ہیں تُم سے وجاہت۔۔۔۔۔"حسن علی شاہ اس تقریب میں قادر بلوچ اور اُسکی فیملی کی عدم موجودگی پر ندازہ لگاتے ہوئے استفسار کیا۔ "جی اُنہوں نے ایک چھوٹی سی بات کو اپنی انا کا مسلہ بنایا ہوا ہے،ٹھیک ہے میں وزیر ہوں پر میں ایسے ایک غلط کام میں اُنکا ساتھ کیسے دے سکتا تھا بلکہ ابھی بھی مُجھے خبر ملی ہے کہ وہ اپنے اُسی کالے دھندے میں ملوث ہو چُکے ہیں اور جانتے ہیں آپ اُنکا ساتھ راٹھور دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "کیا راٹھور،اُس سے اس قسم کی اُمید تو نہیں تھی مُجھے۔۔۔۔۔۔"وہ یقنناً حیران ہوئے تھے۔ "بھائی پیسہ اچھے اچھوں کا ایمان بدل دیتا ہے اور راٹھور کو نہ صرف پیسہ بلکہ پروموشن بھی چاہئیے اس لیے تو وہ میرے خلاف چل رہا کیونکہ میں اُسکی پروموشن کے راستے کی سب سے بڑی رکاؤٹ ہوں۔۔۔۔۔۔" "پلیز وجاہت آپ ان سب کاموں سے دور رہے میں تو آپکی سیاست میں جانے کے حق میں ہی نہ تھی،مُجھے تو پہلے ہی قادر بھائی کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ہے،اُنکی خاموشی کسی بہت بڑے طوفان کا پتہ دے رہی۔۔۔۔۔۔۔"اُنکی باتیں سُن کر حُسنہ بیگم خوفزدہ لہجے میں بولیں۔ "گھبرانے کی ضرورت نہیں وہ جتنے بھی بُرے سہی اور غلط کاموں میں پڑ جائیں پر وہ میرے بھائی ہیں میرے خلاف نہیں جا سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔"وجاہت بلوچ نے تسلی دی تبھی اچانک بجلی چمکی اور زور شور سے بارش شُروع ہو گئی۔ "یا الہی خیر،یہ بارش اچانک ہی شُروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔"ہادیہ بیگم کا دل بادلوں کی گرج سے لرز اُٹھا۔ "سردیوں کی بارشیں ہیں اچانک ہی ٹپک جاتیں،ارے یہ بچے نہیں ابھی تک آئے اندر۔۔۔۔۔۔۔۔"حسن شاہ اُٹھ کھڑے ہوئے اُن کے ساتھ وجاہت بلوچ بھی باہر آئے جہاں پورچ میں پرخہ اور بُرہان کھڑے دکھائی دئیے اور باقی تینوں کہیں نظر نہ آ رہے تھے۔ "پرخہ،بُرہان ادھر آؤ۔۔۔۔۔"وجاہت بلوچ کے بُلانے پر وہ انکے قریب آئے۔ "انکل وہ ساحل کیٹ کو پکڑتے پکڑتے گیٹ سے باہر نکل گیا،بگ برو اور اُسامہ بھائی اُسے لینے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔"بُرہان کے بتانے پر وہ پریشان ہوتے گیٹ کی طرف گئے اُنکے پیچھے حُسنہ بیگم بھی آئیں جن کے چہرے پر تفکر کی پرچھائیاں تھیں۔ "مریام کہاں ہے ساحل۔۔۔۔۔۔"حسن شاہ اُن دُونوں کے قریب گئے جو پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ "پتہ نہیں انکل،میں اور اُسامہ باتیں کر رہے تھے جبکہ بُرہان،ساحل اور پرخہ بلی کے بچے کے ساتھ کھیل رہے تھے،پتہ نہیں کب ساحل اُس کے پیچھے باہر نکل آیا،ہمیں تو بُرہان نے جب بتایا ہم اُسکی تلاش میں فورًا نکل آئے پر وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔۔۔۔۔"مریام کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے اُسکی بات سُن کر نہ صرف وجاہت بلوچ اور حسن شاہ فکرمند ہوئے تھے بلکہ اُن کے پیچھے آتیں حُسنہ بیگم دہل کر بولیں۔ "کیا،کہا گیا ساحل،وہ تو بارش اور اندھیرے سے اتنا ڈرتا ہے،میرا دل ہول رہا ہے جیسے کُچھ بُرا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔"اُنکی آنکھوں سے آنسو بے اختیار ہوئے وجاہت بلوچ نے اُنکو سنبھالا۔ "پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بچہ ہے تُمہیں تو پتہ اُسے بلی کے بچے بہت پسند اُنکے پیچھے نکل گیا ہوگا گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ میرا علاقہ ہے،تم اندر جاؤ پرخہ کے پاس وہ بھی ڈری ہوئی ہے،ہم جا کر دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔"وہ اب گاڑڈذ کی طرف مُڑے۔ "تُم تینوں اُسامہ اور مریام کے ساتھ گاؤں والے راستے جاؤ،میں اور حسن بھائی باغ کی طرف جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہی وہ لوگ اپنے اپنے راستے چل دئیے۔ "مالکن سائین،آپ اندر چلی جائیں بارش تیز ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔"حُسنہ بیگم جو وہی کھڑیں مختلف قرآنی آیات پڑھ رہی تھیں چوکیدار کی آواز پر ایک نظر اپنے بھیگے کپڑوں کی طرف دیکھا اندر جانے کے بجائے اُنکے قدم باغ کے راستے کی طرف بڑھے جا طرف حسن علی شاہ اور وجاہت بلوچ گئے تھے۔

"_________________________________"

"راٹھور دیکھو ہم شکار کی تلاش میں تھے شکار خُود ہی چل کر شکاری کے پاس آ گیا۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ اور راٹھور جو اس وقت ڈیرے میں بیٹھے لال حویلی میں ہونے والے جشن کو ماتم میں بدلنے کا سوچ رہے تھے کہ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ساحل کو دیکھ کر اُنکی آنکھوں میں ایک شیطانی سوچ چمکی۔ "تایا سائیں مُجھے اسے پکڑنا ہے۔۔۔۔۔"ساحل اُن دونوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اُنکی توجہ بلی کی طرف دلانے لگا جو گاڑیوں کے نیچے چُھپ گئی تھی۔ "ادھر آؤ نہ ہم پکڑ کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کے لبوں پر ایک مکاری بھری مُسکراہٹ اُتری جو حسن علی شاہ اور وجاہت بلوچ کو گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر اور گہری ہو گئی تھی۔ "دیکھو نہ راٹھور آج تو بڑے بڑے لوگ خُود چل کر بلوچ کے ڈیرے پر آ رہے ہیں،وزیر قانون وجاہت بلوچ اور بزنس ٹائیکون حسن علی شاہ۔۔۔۔۔۔۔" "ساحل بیٹا آپ اکیلے کیوں آئے اس طرف،چلو یہاں سے۔۔۔۔۔"وجاہت بلوچ جسے قادر بلوچ کا جوشیلہ انداز ایک آنکھ نہ بھایا تھا اُسے نظر انداز کرتا ساحل سے بولا جس پر ساحل نے اُنکی طرف قدم بڑھائے مگر اُس سے سے پہلے راٹھور نے اُسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ "راٹھور یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو میرے بیٹے کو۔۔۔۔۔۔"وجاہت بلوچ گرجا۔ "کول ڈاؤن مائے لٹل برادر،اتنا پریشر کس بات کا۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کے چہرے پر خباثت صاف نظر آ رہی تھی۔ "دیکھیے بلوچ صاحب ہمارا آپ سے بحث کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ کوئی وجہ ہے یوں لڑائی کرنے کی رات بھی بہت ہو گئی اور بارش بھی تیز ہو رہی اگر آپ کا کوئی مسلۂ ہے تو وجاہت سے اس چھ سال کے بچے سے نہیں۔۔۔۔۔۔"حسن علی شاہ نے معاملے کو نرمی سے سُلجھانا چاہا۔ "ارے واہ شاہ صاحب،آپکے بھاشن نے تو بات ہی ختم کردی پر وہ کیا ہے نہ میں آپ لوگوں جتنا پڑھا نہیں ہوں اس لیے میری تو کھوپڑی اُلٹی ہے جس میں اس طرح کی باتیں زرا فٹ نہیں آتیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ کمینہ پن دکھا رہا جس سے وجاہت بلوچ طیش اور غُصے میں راٹھور کی سمت بڑھا اور اس سے پہلے کہ اُس تک جاتا بلوچ کے پسٹل سے نکلتی گولی اُسکا راستہ روک گئی۔ "وجاہت۔۔۔۔۔۔۔"جہاں حسن علی شاہ ساکت ہوئے تھے وہی پیچھے کھڑیں حُسنہ بیگم بھی حلق کے بل چلائیں۔ "ارے واہ بھابھی بیگم،لگتا ہے اب اُنکو بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہی اُوپر بھیجنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کا لہجہ سفاک تھا جس پر حسن علی شاہ نفی میں سر ہلاتے حُسنہ کے آگے ہوئے تھے مگر گولی اُنکا سینہ چیرتی نکل گئی نہ تو وہ اپنی بہن کو بچا سکے نہ خُود کو اور اگلے پل دونوں ایک ساتھ زمین بوس ہوئے تھے۔ ساحل جو ڈرا سہما کھڑا تھا اپنے پیاروں کے خون سے لت پت وجود کو دیکھتا وہ وہی بیہوش ہوتا زمین پر گرا تھا۔ "اب اُسکا کیا کرنا ہے بلوچ،ہوش میں آتے ہی اس نے ہمارا نام لے دینا ہے،اور اگر ہم نے کوہی ثبوت چھوڑا تو حاکم ہمیں نہیں بخشے گا۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کے کہنے پر بلوچ مُسکرایا اور اگلے ہی پل چھ سال کے بچے کے وجود پر گولیاں چلاتا وہ بے حسی کی ہر حد پھلانگ گیا تھا۔

"__________________________________"

"مُجھے لگتا ہے ہمیں واپس جانا چاہیے یہاں کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ لوگ ساحل کو ڈھونڈتے کافی دور نکل آئے تھے اُسامہ کے کہنے پر واپسی کو قدم موڑ لیے۔ "مُجھے لگتا ہے ساحل مل گیا ہوگا انکل لوگوں کو۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے اپنے ساتھ گُم صُم چلتے مریام سے کہا۔ "کُچھ بُرا ہونے والا ہے یار،کُچھ عجیب سا۔۔۔۔۔۔۔"مریام بے چینی سے بولا جس پر اُسامہ نے نہ سمجھی سے دیکھا جو حویلی کی طرف بھاگا تھا۔ "ماما،ڈیڈ۔۔۔۔۔۔"وہ چلاتے ہوئے ہال میں داخل ہوا جہاں پرخہ،بُرہان اور ہادیہ بیگم پریشان سے بیٹھے تھے۔ "کیا ہوا مریام،ساحل کہاں ہے۔۔۔۔۔۔"ہادیہ بیگم اُسکی طرف دیکھیں جو خالی خالی نظروں سے سبکو دیکھتا باہر کی جانب بھاگا مگر اُسکے قدم وہی تھم گئے جہاں گیٹ کے پاس اُن چاروں کی لاشیں پڑیں ہوئیں تھیں۔ "کوہی پھینک کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔"گارڈز کہہ رہے تھے۔ "ماما،بابا،ساحل۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ حلق کے بل چلائی اور دوسرے پل ہی وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتی زمین پر تھی ہادیہ بیگم پر سکتہ طاری ہو گیا اُسامہ اور بُرہان آنکھوں میں آنسو لیے مریام کی طرف دیکھنے لگے جو پتھر کا مجسمہ لگ رہا تھا۔

"__________________________________"

"پتہ نہیں کون ظالم تھے جس نے اس طرح دُشمنی نبھائی۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کے ڈرامے جاری تھے جن پر سب گاؤں والے تو یقین کر چُکے تھے مگر ہادیہ بیگم جو بہت کُچھ جانتی تھیں دسویں سے فارغ ہوتی اُن تینوں بچوں کو اپنے ساتھ لیے شاہ پیلس چلیں آئیں۔ "ماما آپ سو ئیں نہیں ابھی تک۔۔۔۔۔۔"مریام نے اُنکے کمرے میں جھانکا تو اُنکو حسن علی شاہ کی تصویر پکڑے روتا دیکھ کر اندر چلا آیا جہاں ایک طرف بُرہان سویا ہوا تھا ہے تو تیرہ سال کا تھا مگر اس واقع کے بعد خوفزدہ ہو گیا تھا اس لیے ہادیہ بیگم کے پاس ہی سونے لگا تھا۔ "آؤ مریام۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے آنسو صاف کرتیں تصویر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ "ماما آپ نے پرامس کیا تھا کہ آپ روئیں گئیں نہیں۔۔۔۔۔"مریام اُنکے قریب بیڈ پر بیٹھ کر آہستہ آواز میں بولا تا کہ بُرہان کی نیند ڈسٹب نہ ہو۔ "کیا کروں مریام کوئی ایک غم ہو تو پھر نہ،تُمہارے پاپا چلے گئے،حُسنہ میری بہنوں جیسی نند،وجاہت بھائی اور ساحل،اُسکا کیا قصور تھا جو اُن ظالموں نے چھ سال کے بچے کو مار دیا۔۔۔۔۔۔۔"وہ بے آواز رونے لگیں مریام نے لب بھینچ کر اپنی جلتی آنکھوں کو دو پل کے لیے بند کیا۔ "رونے سے سب ٹھیک تو نہیں ہو جائے گا ماما۔۔۔۔۔۔" "ہاں اب کیا ہو سکتا ہے،پرخہ سو گئی۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگیں۔ "ہاں بڑی مُشکل سے سوئی ہے وہ،وہ بہت روتی ہے ماما آپ اُسے کہا کریں رویا مت کرے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہنا چاہتا تھا کہ اُسکا رونا اُسکی برداشت سے باہر ہے مگر وہ کہہ نہ پایا اور لب کاٹ کر رہ گیا ہادیہ بیگم اُس کے جذبات کو سمجھتیں اُس کے ہاتھ ہاتھوں میں پکڑ کر بولیں۔ "اب پرخہ کا تُم ہی سہارا ہو مریام،اس دُنیا میں اب تُم ہی اُسے ہر دھوپ سے بچا کر ہر غم کی پہنچ سے دور رکھو گئے،حُسنہ اور وجاہت بھائی نے بڑی چاہت سے اُسکا ہاتھ تُمہارے ہاتھ میں دیا تُم پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے اب صرف تُم ہی اُس کے اپنے ہو اور کوئی بھی اُس پر اپنا حق نہیں کتا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہادیہ بیگم نے اُسے پیار سے سمجھایا تھا شاید آنے والے وقت کو لے کر کُچھ باور کروایا تھا۔ "آپ فکر نہ کریں ماما پرخہ اب یہی ہمارے پاس رہ کر اپنی تعلیم پورے کرے گی میں اب اُسے لال حویلی جانے نہیں دُونگا مُجھے اُس کے بلوچ انکل ایک آنکھ نہیں بھاتے،اور دیکھا کیسے ڈرامے کر رہے تھے،مُجھے تو لگتا ہے یہ سب اُنہوں نے کروایا ہے ماما وہ ہمیشہ انکل وجاہت سے جیلس ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔"سترہ سالہ لڑکے کے مُنہ سے یہ سب سُن کر وہ ہکا بکا رہ گئیں وہ بچپن سے بہت زیرک نگاہ تھا وہ یہ جانتی تھیں مگر اس قدر ہوگا یہ آج اندازہ ہوا تھا۔ "ہاں میرے لال یہ سب اُسی گھٹیا شخص نے کیا ہے مگر ہم اُس کے خلاف کُچھ نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔"اُنکی آنکھوں میں آئے آنسو اُسے بے چین کر گئے۔ "کیوں مانا ہم پولیس کی مدد سے کُچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔" "تُم نہیں جانتے مریام اس ملک میں سب کُچھ بکا ہوا ہے،مُجھے تُم تینوں کی جان کا دھڑکا لگا رہتا ہے اس لیے تم لوگ اسلام آباد جاؤ گئے اپنی سعدیہ خالہ کے ساتھ،وہ لوگ وہی شفٹ ہو رہے ہیں اور میں کل تُمہارے پاپا کہ دوست ایس پی عارف اے ملنے جاؤنگی وہ ضرور کوئی راستہ دکھائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"ہادیہ بیگم کی بات پر وہ سر ہلاتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"__________________________________"

"ایسے کیسے جل گئیں ماما،ماما خُودکُشی نہیں کر سکتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہادیہ بیگم کی وفات کے پانچویں دن بھی مریام یہ بات ماننے کو تیار نہ تھا کہ اُسکی ماما خُود پر تیل چھڑک کر آگ لگا کر سُو سائیڈ کمٹ کر چُکی تھیں۔ نیاز علی شاہ اور سعدیہ بیگم جو اسلام آباد شفٹ ہو رہے تھے ساتھ ان تینوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جانے لگے مگر قادر بلوچ کی آمد نے یہ سب ہونے سے روک دیا۔ "پرخہ میری بھتیجی ہے میں اُسے ایسے کیسے کسی کے ساتھ بھیج سکتا ہوں وہ اٹھارا سال ہونے سے پہلے۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ کی بات مریام کو آگ لگا گئی۔ "آپ روکنے والے کون ہوتے ہیں پرخہ میری بیوی ہے یہ وہی رہے گی جہاں میں رہونگا۔۔۔۔۔۔۔" "کیسی بیوی کونسی بیوی،نابالغ بچی کے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو بس نکاح ہی ہوا ہے نہ اس لیے اٹھارا سال ہونے تک پرخہ لال حویلی رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ دو ٹوک بولا۔ "شاہ،مُجھے نہیں جانا انکے ساتھ۔۔۔۔۔۔"پرخہ جو قادر بلوچ کی گرفت میں مچل رہی تھی مریام سے بولی جو سختی سے قادر بلوچ کی گرفت سے اُسکا ہاتھ نکالتا اپنے قریب کر گیا پرخہ نے سختی سے اُسکا بازو پکڑ لیا۔ "دیکھئیے بھائی صاحب پرخہ مریام کی بیوی ہے اُسے ہمارے ساتھ جانے دیں۔۔۔۔۔۔"سعدیہ بیگم نے ہاتھ جوڑ دئیے۔ "کیوں جانے دُوں تاکہ کل کو جائیداد میں حصہ مانگنے آ جائے،میں کہہ رہا ہوں چھوڑ دو اس لڑکی کو ورنہ۔۔۔۔۔۔۔" "ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام اُس کے سخت لہجے سے گھبرایا نہیں تھا قادر بلوچ اُسکی آنکھوں سے نکلتی نفرت صاف محسوس کر گیا تھا اُس نے اپنے گارڈذ کو اشارہ کیا تھا تو تینوں نے پسٹل بُرہان،اُسامہ اور سعدیہ بیگم کی کنپٹی پر رکھ کر سب کو ساکت کر دیا۔ "اگر انکی جان چاہتے ہو لڑکی کو جانے دو ورنہ تم سب کو مار کر بھی ہم اسے لے کے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "مریام بیٹا پلیز ضد مت کرو جانے دو اُسے ورنہ وہ ہم سب کو مار دے گا۔۔۔۔۔۔"سعدیہ بیگم روتے ہوئے بولیں مریام نے ایک نظر اُسامہ اور بُرہان پر ڈالی دوسری اپنے ساتھ چپکی پرخہ وہ سترہ سال کا لڑکا ان چاروں کا مقابلہ کیسے کر سکتا تھا۔ "نہیں شاہ۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ اسکی آنکھوں میں چُھپے مہفوم کو پڑھ کر سر نفی میں ہلا گئی۔ "اگر آج یہ تینوں مارے گئے تو میں انکو واپس نہیں لا سکونگا پرخہ پر میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تُمہیں لینے ضرور آؤنگا بس کُچھ عرصہ گُزرا لینا وہاں یہ مریام کا وعدہ ہے اپنی بیوی سے،مر جاؤنگا مگر تُمہیں آذاد کروانے لازمی آؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مضبوط اور پُراعتماد لہجے میں بولا پھر پرخہ کو نرمی سے خُود سے دُور کرتا صندل بُوا کی طرف مُڑا۔ "آپ پرخہ کے ساتھ اُس کے پاس رہیں گی۔۔۔۔۔۔۔"صندل بُوا سر ہلا کر روتی ہوئی پرخہ کو ساتھ لیے بلوچ کے پیچھے چل دیں جبکہ مریام نے بے بسی سے لب کاٹے وہ اس وقت خُود کو دُنیا کا کمزور ترین انسان تصور کر رہا تھا۔

"_________________________________"

وہ دونوں بھائی نیاز علی شاہ اور سعدیہ بیگم کے ساتھ اسلام آباد شفٹ ہو گئے یہاں اُسامہ اور مریام نے ایک ساتھ ہی ایم بی اے کی ڈگری لی اور حسن علی شاہ کا بزنس سنھبال لیا جو اب تک نیاز علی شاہ دیکھ رہے تھے۔مریام نے بزنس کی بھاگ دوڑ سنبھالتے ہی کراچی سیٹل ہونے کا فیصلہ کیا جسکی مخالفت سعدیہ بیگم نے کی مگر پھر نیاز علی شاہ کے سمجھانے پر مان گئیں۔ مریام شاہ اُسامہ اور بُرہان نے دوبارہ آ کر شاہ پیلس کو آباد کر لیا جو نوکروں کے رحم و کرم پر تھا بُرہان شاہ جس نے انٹیلی جینس جوائن کر لی تھی اُس کے آنے ہر تینوں نے پرخہ کی واپسی اور اپنے عزیزوں کے قاتلوں کو اُن کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ "ماما کے نمبر سے جو مُجھے لاسٹ میسج ریسیو ہوا اُس میں بلوچ،راٹھور اور حاکم کے نام تھے شاید ماما نے جلدی جلدی اور کسی سے بچ کر میسج کیا تھا اس لیے یہ تینوں نام ہی سینڈ کر دئیے۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُن دونوں کو وہ میسج دکھایا جو ابھی بھی اُس نے سنبھال کر رکھا تھا۔ "مطلب یہ تینوں ساتھ ملے ہوئے تھے،پر ہمیں تو بس بلوچ کا ہی پتہ ہے،بس اُسکی فائل ملی جس میں اُسکے بارے سب کُچھ لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کی بات پر بُرہان نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ "بلوچ کی فائل ہی چاہیے تھی اُسامہ بھائی یہی بلوچ ہمیں اُن تک لے کر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔" "ایک اور آدمی بھی ہے جو ہمیں اُن تک لے کر جا سکتا ہے،ایس پی عارف۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں اُسکی بات پر چونکے۔ "بگ برو یہ کیسے۔۔۔۔۔۔"بُرہان سمجھ نہ۔ "ماما اُس دن ایس پی عارف سے ملنے ہی جا رہی تھیں اور ماما نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اُن لوگوں کو جانتا ہے،اب یہ تُمہارا کام ہے بُرہان کہ کس طرح ایس پی عارف سے سب پتہ لگواتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔" "جی بگ برو،ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔" "اب سب سے اہم کام ہے پرخہ کو لال حویلی سے نکال کر لانا اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے لال حویلی تک رسائی حاصل کرنا ہو گی،اس لیے میں لال حویلی جاؤنگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "مریام تُم،تُم تو نہیں جا سکتے وہ پہچان لے گا تُمہیں۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ "نہیں پہچانے گا ایک سترہ سالہ لڑکے کا چہرہ اب تک اُسکے دماغ سے نکل گیا ہوگا وہ صرف مریام شاہ کو نام کی حد تک ہی جانتے ہیں اس لیے میری جگہ اُسامہ تُم مریام شاہ بن کر اُنکے سامنے رہو گئے تا کہ اُن سب کا فوکس تُم پر رہے اور میں جونیجو بن کر لال حویلی جاؤنگا تا کہ پرخہ تک پہنچ پاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکے پلان ہر دونوں متفق ہوئے۔ "اُسامہ اس فائل میں جو بلوچ کے کالے دھندے ہیں اُن میں سے کسی ایک پر تُمہیں اٹیک کرنا ہوگا تا کہ مُجھے لال حویلی جانے میں آسانی ہو۔۔۔۔۔۔" "کیوں نہ بلوچ پر ہی اٹیک کروا دیں تا کہ تُمہیں اُسکا اعتبار جیتنے پر آسانی ہو۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کی بات میں وزن تھا جس پر مریام شاہ نے سر ہلا دیا۔۔

   0
0 Comments